Jannah Theme License is not validated, Go to the theme options page to validate the license, You need a single license for each domain name.

کس کس کا ماتم کروں؟

تحریر: محمد امجد بٹ

مندری کے دونوں اعتراض درست تھے میں خود بڑے عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ میری تحریر میں ایک بیزاری، ایک لاتعلقی سی آگئی ہے وہ تلخی ، وہ آگ اور وہ سلگتا ہوا درد ختم ہوتا جا رہا ہے جو اس تحریر کی پہچان تھا۔۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔

میں اکثر خود سے سوال کرتا ہوں ہر بار میں خود کو یہی جواب دیتا ہوں کہ کوئی نیا موضوع ، کوئی نیا ایشو نہیں میں نے’’ مندری جی‘‘ کو بھی یہی جواز پیش کیا میں نے اسے بتایا کہ کہ ’’ مندری جی ‘‘ مہنگائی پر کتنے کالم لکھے جاسکتے ہیں؟؟؟ بیروزگاری ، جہالت، اور بیماری پر کوئی کہاں تک لکھ سکتا ہے؟

بدامنی ، حکومتی رٹ، حکومت بے حسی، لوٹ کھسوٹ، کرپشن ، لاقانونیت، دہشت گردی ، اور سیاسی مکر وفریب ، پر کتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے ہیں؟؟؟ آخر انسانی دماغ کی بھی ایک حد ہوتی ہے آپ سیاپا بھی ایک حد تک کرسکتے ہیں بچہ ماں کو کتنا پیارا ہو تا ہے بچہ مر جائے تو ماں بین کرتی ہے روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟

ایک گھنٹہ، ایک دن یا ایک ہفتہ ،آخر بین چیخوں ، چینخیں سسکیوں اور سسکیاں آہوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں دل مضطرب کو چین آجاتا ہے ایک ہلکی سی کسک، درد کی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے’’ مندری جی‘‘ کو بتایا کہ کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین ایک چیخ ہوتے ہیں یہ بین یہ چیخ بتاتے ہیں کہ لوگو تمھارے ساتھ ظلم ہورہا ہے تم لٹ گئے ہو ، تم برباد ہو گئے ہو۔

اس چیخ اس بین پر لوگ متوجہ ہو جائیں اور اس چیخ ، اس بین پر اگر ظالم ٹھٹھک کر رہ جائے تو کالم اور کالم نویس کا فرض پورا ہو گیا لیکن اگر ظالم ان چیخوں ان بینوں کے باوجود ظلم کرتا رہے ایک لمحے کیلئے اس کا ہاتھ نہ رکے اس کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ تک نہ آئے تو وہ چیخ ، وہ بین فضائی آلودگی کے سوا کچھ نہیں ہوتے

لوگ بھی اگر اس چیخ اور بین کو معمولی سمجھیں اور ایک روٹین کے درجہ دے دیں تو بھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک جھاڑی ، سوکھی سڑی اور کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ، چوکیدار کے جاگتے رہو کے اعلان سے اگرچور گھبرائیں اور نہ اہل محلہ کی آنکھ کھلے تو چوکیدار کیا کرئے؟؟؟؟؟ ۔ اسکی پتلیوں میں بھی نیند ہچکولے گی اس کا ضمیر بھی جمائیاں لینے لگے گا ۔

یقین جانیئے !!کہ جب لکھنے بیٹھا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں کس کے لئے لکھ رہا ہوں؟؟؟ ان لوگوں کیلئے جو غلامی سہنے کی عادت ، زیادتی برداشت کرنے کی خو جن کی نس نس میں بس چکی ہے جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان کو بھی ایک فسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں جو اپنے قتل کے گواہ پر ہنستے ہیں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ بیل کو لیکچر کے ذریعے چیتا نہیں بنا سکتے۔

بھیڑئیے کے دل میں بھیٹر کیلئے ہمدردی نہیں جگا سکتے ، لہٰذا صاحبو سچی بات ہے سیاپے کی یہ نائین تھک چکی ہے آخر قبرستان میں اذان دینے کی ایک حد ہوتی ہے رہا دوسرا اعتراض تو میں نے عرصہ درازمیں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے کہ لفظ سیاست سے بو آنے لگتی ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی کچرا گھر کی دیوار پر بیٹھا ہوں ایسی دیوار جس میں اصول ، انصاف ، وفاداری، ایمانداری اور ضمیر نام کی ہر وہ خوبی ہر وہ وصف سٹر رہا ہے جس کی وجہ سے ایک درندہ اشرف المخلوقات بنتا ہے۔

مجھے ان اوصاف ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظر آتے ہیں میں نے گزشتہ سالوں میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جو اپنے محسنوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں میں نے فوجی حکمرانوں پر تنقید کرنے والوں کو ان کے تلوے چاٹتے دیکھا ہے میں نے مشرف اور باجوہ دور میں کھلی آنکھوں سے اشارے کے بغیر دمیں ہلتیں ، زبانیں نکلتی دیکھی ہیں جو لوگ اپنی انا ، اپنا ضمیر ، اپنی زبان گروی رکھ کر جنم لیا کرتے ہیں۔

ان سے کیا توقعات وابستہ ہو سکتی ہیں جو لوگ اپنے نظریے پر قائم نہیں رہ سکتے جو اپنے لیڈروں کے نہیں ہو سکتے ، وہ میرے یا آپ کے کیسے ہوسکتے ہیں وہ میرے نظریات ، میرے احساسات اور میرے جذبات کی کیا ترجمانی کریں گے؟؟؟؟ وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے ؟؟؟؟وہ انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟؟؟

صاحبو ،،، مندری جی تو میری ایک نہیں سنتے مگر جاتے جاتے آپ کو خبر دیتا جاؤں کہ گزشتہ کئی روز آپ سے جدائی میں جو گزرے وہ کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے گزرے ان دنوں میں بہت سے بحران آئے اور گزر گئے نئے سال میں نئے موضوعات کے ساتھ بروقت لکھنے کی کوشش کروں گا ۔کچھ پس پردہ حقائق کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ منافقت کے بتوں کو توڑنے کی بھی کوشش کروں گا اللہ تعالیٰ سے استقامت عطا کرنے کی دعا ہے۔

 

 

 

 

 

 

(ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button