
وہ میری پہلی اور آخری سہیلی تھی۔ میں اس کو دل و جان سے چاہتی تھی، اس پر اعتبار کرتی تھی۔ وہ پہلی لڑکی تھی جس نے مجھے اپنی دلیرانہ طبع کی بدولت متاثر کیا تھا۔ منزہ نے نویں میں ہمارے اسکول میں داخلہ لیا اور میری ہم جماعت ہو گئی۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ کم عقل نہیں ہے۔ وہ بات کو جلد سمجھ جاتی تھی۔ فضول بات بھی نہ کرتی مگر اپنی دلچسپ گفتگو سے متوجہ کر لیتی۔ کچھ تیز طرار بلکہ بولڈ کہوں تو بے جانہ ہو گا۔ اس سے قبل میری کوئی سہیلی نہ تھی۔ میں دوست بنانے سے یوں ڈرتی تھی کہ امی کہتی تھیں، سہیلیاں سوچ سمجھ کر بنایا کرو اور سہیلیوں پر زیادہ اعتماد مت کرنا۔ دراصل امی شکی مزاج تھیں۔ وہ مجھ سے ملنے والی لڑکی کو جانچتیں اور ان سے میرے میل جول پر کڑی نظر رکھتیں۔ محلے کی کوئی لڑکی ملنے آجاتی تو اس کے جانے کے بعد مجھ سے ہزار سوال کرتیں کہ کون تھی، کیوں آئی تھی۔ تبھی میں ان کی انکوائری سے بچنے کی خاطر سہیلیاں نہیں بناتی تھی۔ کلاس کی لڑکیاں ایک ساتھ شاپنگ کو جاتیں، گھریلو تقریبات میں ایک دوسرے کو مد عو کر تیں اور ایک دوجے کے گھر آتی جاتی تھیں مگر میں الگ تھلگ رہتی
تاکہ نہ راہ ورسم بڑھے اور نہ یہ میرے گھر تک آئیں لیکن منزہ سے ملتے ہی میں اس کے سحر میں گرفتار ہو گئی تھی۔ جلد ہی ہم پکی دوستی ہو گئی اور میں اپنی ماں کی ساری نصیحتیں بھول گئی۔ اسکول سے چھٹی ہوتے ہی ہم اکٹھے چل پڑتیں۔ ہمارے گھروں کا رستہ ایک تھا۔ میر اگھر پہلے آتا، آگے وہ اکیلی اپنے گھر تک کا راستہ طے کرتی۔ کافی دنوں تک امی کو میں نے منزہ کے بارے نہ بتایا کہ میں اس لڑکی کی دوستی کو کھونا نہ چاہتی تھی۔ امی کہتی تھیں کہ وہ جہاں دیدہ ہیں، کسی لڑکی کو ایک نظر دیکھ کر پہچان جاتی ہیں کہ وہ کیسی ہے۔ پس میں نے منزہ کو ایک بار بھی اپنے گھر آنے کا نہ کہا، حالا نکہ روزانہ وہ میرے گھر کے سامنے سے گزرتی تھی۔ ایک دن اس نے شکوہ کیا۔ اس کے طعنوں کے باعث بالآخر مجھے اس دوستی کے رشتے سے پردہ اٹھانا ہی پڑا۔ امی کو منزہ کے بارے میں بتادیا اور کہا کہ کسی دن اُس کو گھر لے آئوں گی مگر حسب عادت ماں نے سوالات سے پریشان کر دیا تو میں رو پڑی۔ امی سے کہہ دیا۔ ماں یہ کیسا ستم ہے کہ آپ مجھ کو میری ہم عمر لڑکیوں سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ کس جرم کی سزا میں تن تنہار ہوں جبکہ میری کوئی بہن بھی نہیں ہے۔ میرے رونے پہ امی کا دل نرم ہو گیا۔ اچھا ٹھیک ہے تم اس کو گھر لے آئو ، میں منزہ کو دیکھ لوں گی ، تو بے شک پھر تم اس کے گھر بھی چلی جانا، مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ بس ذرا محتاط رہنا، آج کی سہیلیوں کا کچھ بھروسہ نہیں، غلط قسم کی لڑکی سے دوستی ہو جائے تو زندگی برباد ہو سکتی ہے۔ ماں نے پھر وہی بات دہرائی جس سے میں چڑتی تھی۔ میں نے سر پکڑ لیا، تبھی امی نے مجھ کو پیار کیا، منایا اور اس دن کے بعد انہوں نے مجھ کو پھر کبھی اس بارے میں کچھ نہ کہا۔ یوں میری اور منزہ کی سنگت بے خوف و خطر ایک خاص نہج پر چل نکلی، پھر تو وہ میری زندگی کالازمی حصہ بن گئی۔ میری خوشیوں کی سا تھی ۔
اب میں اُسے اپنے دل کی ہر بات بتادیتی تھی۔ یوں لگتا کہ اسی کی خاطر اسکول جاتی ہوں تبھی بخار میں بھی چھٹی کرنے کو دل نہ کرتا۔ جس روز وہ اسکول نہ آتی ، میرا دن بہت برا گزرتا اور جس روز کسی وجہ سے مجھ کو چھٹی کرنا پڑتی ، وہ گھبرا کر چھٹی کے بعد میرے گھر چلی آتی۔منزہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جبکہ میرا تعلق ایک کھاتے پیتے گھر سے تھا۔ ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے۔ میرے والد صاحب کی اس شہر میں بہت عزت تھی۔ وہ ایک شریف آدمی تھے۔ کسی سے تلخ بات نہ کرتے کبھی کسی سے جھگڑتے نہ تھے۔ ہم کو خوش اور آسودہ حال دیکھنے کے لئے دن رات محنت میں مگن رہتے۔ تبھی ہمارا گھر سکون کا گہوارہ تھا لیکن اس پُر سکون گھر پر بجلی گرائی بھی تو کس نے وہی جو میری پہلی اور آخری دوست بنی تھی اور جس کا نام منزہ تھا۔ ہم نے میٹرک کے بعد اکٹھے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک دن میں کالج جانے کے لئے نکلی تو دروازے پر منزہ مل گئی۔ وہ روز ہی میرے گھر کے دروازے پر دستک دیتی تھی اور میں اس کے ساتھ کالج چلی جاتی تھی۔ اس روز اس کو آنے میں ذرا دیر ہوئی تو میں کالج جانے کو نکل پڑی تبھی مڈ بھیڑ ہو گئی۔ وہ بولی۔ آج اکیلی ہی چل دیں۔ میں سمجھی تم آج نہیں جارہیں۔ آنے میں اتنی دیر جو کر دی۔ انتظار تو کر تیں، اپنی طرف سے سمجھ لیا۔ اس نے شکوہ کیا۔ خیر ہم حسب معمول باتیں کرتی کا لج پہنچ گئیں۔ تیسرا پیریڈ فری تھا، سوچا کینٹین جا کر کچھ لیتے ہیں۔ ہم نے چائے کی اور جب میں نے بل ادا کرنے کو بیگ کھولا تو اس میں ایک لفافہ رکھا دیکھا، نکالا تو کچھ بھاری لگا، میں نے اُسے بیگ میں واپس ڈال دیا کہ بعد میں دیکھوں گی۔ بل ادا کر کے ہم کلاس میں آگئے۔ جب پیریڈ ختم ہوا تو میں جلدی سے باہر نکلی اور گرائونڈ کے ایک کونے میں بیٹھ گئی ، بیگ سے لفافہ نکال کر کھولا تو ایک خط اور ایک لڑکے کی تصویر نکلی۔ حیران رہ گئی کہ یہ لفافہ میرے بیگ میں کہاں سے آگیا ہے ؟ خیر میں نے خط کو پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں عبارت کو پڑھتی جاتی تھی ، حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ اسی دوران منزہ مجھ کو تلاش کرتی ہوئی وہاں آگئی اور مجھے پریشان دیکھ کر بولی۔ نیلو ! کیا بات ہے، کیوں پریشان ہو ؟ تبھی میں نے خط اور تصویر سامنے کر دی کہ ، خدا جانے یہ کس کا خط اور فوٹو ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ میرے بیگ میں سے نکلے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگی۔ اچھا، تو تم نے کسی سے ناتا جوڑ لیا ہے۔ نہیں منزہ میں نے کسی سے ناتا نہیں جوڑا ہے بلکہ میں تو پریشان ہوں کہ آخر یہ ہے کون؟ ابھی میں اور کچھ کہنے والی تھی کہ اس نے میری بات کاٹ دی۔ ارے یہ تو وہی لڑکا ہے جو ہمارے پڑوس میں رہتا ہے۔ کیا تم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا؟ نہیں۔ تبھی وہ گویا ہوئی۔ یہ تو بہت اچھا اور شریف لڑکا ہے۔ اس پر میں نے اس کو خط کھول کر دکھایا۔ اس میں ایک داستانِ عشق رقم تھی اور مرنے جینے کی باتیں کہ میں آپ پر فدا ہوں، جب سے تم کو دیکھا ہے ، میرے دل کا چین مٹ گیا ہے۔ شادی کر کے آپ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہوں، آپ نے انکار کیا تو جان کی بازی لگا سکتا ہوں۔ کالج کا ٹائم ختم ہورہا تھا۔ ہم ساتھ نکلے۔ جب میراگھر آیا تو دروازے پر رک کر منزہ نے خدا حافظ کیا، ادھر ادھر دیکھا، جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو، پھر آگے چلی گئی۔ یکا یک میرے ذہن میں خیال آیا، کہیں یہ خط اسی نے تو میرے بیگ میں نہیں رکھا ! کلاس میں وہی میرے ساتھ ہوتی تھی۔ اگلے لمحے میں نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ اپنی اتنی اچھی سہیلی پر ایسی بد گمانی سے خود مجھ کو تکلیف محسوس ہونے لگی تھی۔ گھر آکر بہت بے دلی سے میں نے کھانا کھایا۔ میرا موڈ اچھا نہ تھا کہ کمرے میں امی نے آکر کہا۔ نیلوفر آج شام کچھ مہمان آرہے ہیں ، چائے کے ساتھ کچھ کباب بھی تیار کر لینا۔ میں نے اسی وقت کچن جا کر کباب تیار کر کے رکھ دیئے۔ جب مہمان آگئے ، امی نے کہا کہ چائے لے کر آئو ۔ جب میں ٹرے لے کر گئی وہاں تین خواتین تھیں جو مجھ کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ امی نے مجھ کو نہ بتایا کہ یہ کیوں آئی تھیں۔ دن گزرتے رہے ، میں اور منزہ حسب معمول روزانہ اکٹھے کالج جاتے آتے رہے۔ ایک دن اس نے مجھ کو بتایا، وہ دیکھو، وہاں جو لڑ کا کھڑا ہوا ہے یہ وہی ہے جس نے تم کو خط لکھا اور وہ تصویر بھی اسی کی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا۔ واقعی یہ وہی تصویر والا ہی تھا۔ وہ اپنی تصویر جیسا خوبصورت تھا۔ ہمارے کالج کے گیٹ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا اور اس کی توجہ ہماری طرف تھی۔ اس کے بعد وہ روز آنے لگا۔ وہ ہم سے کوئی بات نہ کرتا، بس دور سے کھڑا دیکھتا رہتا۔ امتحان ختم ہوئے تو ہمارا کالج جانا ختم ہو گیا۔ میں سارا وقت گھر میں رہتی، کبھی کبھی منز ہ آجاتی تب وہ مجھے کچھ نہ کچھ اس لڑکے کے بارے میں بتاتی رہتی۔ زیادہ تر اس کی تعریف کرتی تھی۔ ایک دن اس نے کہا کہ اے بے خبر ، یہ لڑکا یونہی نہیں آتا، اس کے گھر سے عورتیں تمہارا رشتہ لینے آچکی ہیں۔
اس نے تصویر بھی اسی وجہ سے تم تک پہنچائی ہے تاکہ تم بھی اس کو ایک نظر دیکھ کر پسند کر لو۔ اس نے اپنی ماں اور بہنوں کو تمہارے گھر خود بھیجا تھا اور وہ تم کو پسند بھی کر چکی ہیں۔ اب انہوں نے بات ڈال دی ہے اب تمہاری امی کے جواب کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوچ کر کچھ دنوں بعد جواب دیں گی۔ اس لڑکے کا نام نوشیروان تھا، یہ بھی منزہ نے ہی بتایا تھا۔ اس کے بعد تو وہ اس لڑکے کے بارے میں معلومات کا ذریعہ بن گئی- اس بار جب وہ خواتین آئیں اور انہوں نے مجھ سے باتیں کیں ، وہ مجھ کو اچھی لگیں۔ میں جان چکی تھی کہ وہ نوشیر وان کے گھر سے آئی ہیں۔ میں تھوڑی دیر بعد وہاں سے اٹھ گئی۔ مجھ کو معلوم نہ تھا کہ امی کی ان کے ساتھ کیا باتیں ہوئی تھیں۔ بہر حال ان خواتین کے بار بار ہمارے گھر آنے جانے سے میرے دل میں نوشیر وان کے لئے جگہ بن گئی۔ اب میں از خود اس کے بارے سوچ بچار کرنے لگی۔ منزہ نے ان سوچوں میں زیادہ آگ لگائی۔ میرے دل میں شوق پیدا کیا۔ اس کی باتوں نے ہی میرے اندر سوئے ہوئے جذبوں کو جگایا۔ گو یا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ جب آتی، کہتی۔ نیلو، نوشیروان تم پر مرتا ہے۔ دیکھو اس کا دل نہیں توڑنا، کس کا دل توڑنے سے رب روٹھ جاتا ہے۔ اب وہ اصرار کرنے لگی کہ تم نوشیر وان کو خط لکھو۔ اس خط کا جواب ہی لکھ دوجو اس نے تم کو لکھا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کیا کروں۔ ان دنوں سیل فون تو تھے نہیں، خط میں لکھنانہ چاہتی تھی۔ منزہ مجھے آمادہ کرتی رہی۔ اس کو خط لکھو اور میں نے بالآخر خط لکھ کر دے دیا۔ اب وہ میر اخط اس تک اور اس کا مجھ تک پہنچانے لگی۔ دو چار بار خط لکھنے کے بعد میں نے مزید خط لکھنے سے انکار کر دیا۔ وہ بولی۔ تمہاری امی نے تو ہاں کر دی ہے۔ اب تم کو ڈر کس بات کا ہے۔ غرض وہ اس کی باتیں مجھ تک اور میری باتیں اُس تک پہنچانے لگی۔ اس کے بعد بھی نوشیروان کی والدہ اور بہنیں متعدد بار آئیں، یہاں تک کہ گھر میں شادی کے تذکرے ہونے لگے اور مجھے علم ہو گیا کہ نوشیر وان سے میری بات پکی ہو گئی ہے۔ اب کشتی کنارے لگنے والی تھی اور میں نوشیروان کی ہونے والی تھی۔ تبھی میرے دل میں بغیر ملے ہی خود بخود اس کے لئے محبت کے جذبات پیدا ہو گئے اور میں اس کے خیالوں میں رہنے لگی۔ کیا خبر تھی کہ جس نے باغبان بن کر میرے دل میں محبت کا چمن کھلایا ہے وہی آگے بڑھ کر اس باغ کو آگ لگادے گی اور ہماری جنت لوٹ لے گی۔ میں تو نو شیر وان سے کبھی نہ ملی تھی۔ مجھ کو گھر سے قدم باہر رکھنے کی اجازت ہی کب تھی مگر منزہ توروز اس سے ملتی تھی۔ نوشیروان اس کے پڑوس میں رہتا تھا۔ پہلے وہ میرے بہانے سے ملتی تھی، پھر اپنے بہانے سے ملنے لگی۔ جانے کب ان کے درمیان ایسار شتہ بن گیا کہ انہوں نے مجھے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور مجھ کو رستے سے ہٹا کر یہ دونوں ایک ہو گئے۔ امی ادھر میری شادی کی تیاریوں میں لگی تھیں۔ اُدھر نوشیروان کو امی اس کی اور میری شادی کی تیاری کر رہی تھیں۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ درمیان میں کیا ہو چکا ہے۔ جس نے خود اپنے گھر والوں کو میرے گھر رشتے کے لئے بھیجا، اس نے خود انکار بھی کر دیا۔ نوشیر وان کی والدہ اور بہن اتنی شرمندہ ہوئیں کہ ہمارے گھر یہ بتانے بھی نہ آئیں کہ ان کے لڑکے نے تمہاری لڑکی سے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ ایک دن جب میں اپنے دوپٹے پر گوٹا ٹانک رہی تھی، میری دوست ہنستی مسکراتی آئی اور پوچھا۔ کیوں دوپٹے پر گوٹا ٹانک رہی ہو ، کب شادی ہو رہی ہے تمہاری؟ میں سمجھی کہ وہ مجھے مبارک باد دینے آئی ہے۔ مجھ کو کیا خبر کہ وہ میرے ارمانوں پر بجلیاں گرانے آگئی ہے۔ جتنی دیر بیٹھی رہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی، لیکن اس نے مجھے نوشیر وان کے نام سے نہیں چھیڑا، جبکہ میں منتظر تھی کہ وہ اس کا ذکر کرے گی، اس کا کوئی پیغام دے گی لیکن اس نے نوشیر وان کا نام تک نہ لیا۔ میں نے بہانے سے اس کو وہ جوڑے دکھائے جو امی نے میرے جہیز کے لئے خریدے تھے۔ وہ زیر لب مسکراتی، اٹھ کر چل دی۔ مبارک باد بھی نہ دی، البتہ جاتے ہوئے ایک لفافہ میری میز پر رکھ دیا۔ کہنے لگی۔ میرے جانے کے بعد اٹھا کر دیکھ لینا، سر پرائز ہے تمہارے لئے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے وہ لفافہ کھولا۔ اس میں دعوت نامہ تھا شادی کا، نام پڑھ کر میرے ہاتھ کانپنے لگے اور آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ میں بستر پر گر گئی۔ کتنی سنگ دل تھی وہ، مجھ پر کیسا وار اس نے کیا تھا۔ یہ اس کی اور نوشیروان کی شادی کا کار ڈ تھا۔ وہ مجھے اپنی شادی کا بلاوا دینے آئی تھی۔ وہ جو گہری دوست تھی میری، جس قدر دکھ اس کی اس حرکت سے ہوا، اس قدر دکھ کبھی کسی بات سے نہ ہوا تھا۔ آج ماں کی باتیں اور نصیحتیں یاد آئیں، کتنا سچ کہتی تھیں وہ کہ سوچ سمجھ کر دوست بنانا اور کبھی کسی سہیلی پر زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔ برسوں گزر گئے اس بات کو ، اب بھی سوچتی ہوں ایک منزہ ہی ایسی دوست تھی یا واقعی دوست ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ آج سمجھ نہیں پائی لیکن اس کے بعد پھر کبھی کسی کو دوست نہ بنا سکی۔ بس وہی میری پہلی اور آخری سہیلی تھی۔