
میں دکان سے اشیاء خوردونوش لے کر ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ اچانک پلاسٹک کا ایک شاپر میرے اوپر سے سامنے آ کر گرا اور پھٹ گیا۔شاپر میں بھرا گیلا کچرا کچھ اس طرح گلی میں پھیلا کہ مجھے بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹ کر خود کو اس گندگی سے محفوظ بنانا پڑا۔ یہ جاننے کے لیے کہ یہشاپر کہاں سے آیا، میں نے گردن اٹھا کر اوپر وہ مقام کھوجنے کی کوشش کی مگر عمارتوں کی بالکونیوں اور کھڑکیوں سے کسی کا پتہ نہ چل سکا۔
’’یہ تو شہریوں کے ساتھ روز ہوتا ہے، خواتین گھروں میں کچرے کو رکھنے کے بجائے یونہی کھڑکی سے باہر شاپر میں ڈال کر پھینک دیتی ہیں۔‘‘ مجھے حیران و پریشان دیکھ کر دکاندار طنزیہ مسکرایا۔ ’’یہ حال ہے تعلیم یافتہ لوگوں کا‘‘ میں اور آگے بڑھا ۔ ’’صرف ڈگریاں اور پیسہ ہے شہریوں میں شعور نہیں لا سکا‘‘ دکاندار کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔کہنے کو تو یہ شہر کے ایک پوش علاقہ ہے جہاں مکانوں کے علاوہ ڈبل ٹرپل سٹوری ، کوٹھیاں، بنگلے فلیٹس بھی موجود ہیں ۔
ہر گھر میں تعلیم یافتہ لوگ بستے ہیں اور آمدنی بھی اگر بہت وافر نہیں، تو ضروریات اور آسائشاتِ زندگی کے حوالے سے یقیناً بہت مناسب ہو گی جس کی عکاّسی فلیٹوں کی کھڑکیوں میں لگے اسپلٹ اے سی کے یونٹس کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ آمدنی کا ہے، تعلیم کی کمی کا، یا پھر محض اپنی ذمہ داریوں اور شہری کردار سے نظر چرانے کا؟
گھروں سے باہر بالکونیوں سے کچرا پھینک دینا، اپنے گھرمیں جھاڑو دے کر کچرا باہر گلی کے کونے میں ڈال دینا، عید پر اپنے گھر میں قربانی کے بعد آلائشیں باہر کھلے پلاٹوں یا سڑکوں کے اطراف کھلے چھوڑ دینا، یہ تو صرف مثالیں ہیں ہماری اس ذہنیت کی جو ہمیں ہماری شہری ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرنے دیتی۔ اگر آپ سڑک پر نکلیں ! مجال ہے کہ پیدل چلتے راہگیر کو سڑک پار کرنے کے لیے کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل والا راستہ دے دے۔
یکطرفہ ٹریفک کی سڑکوں پر بھی اکثر اوقات گاڑیاں اس دھڑّلے سے غلط سمت میں رواں دواں ہوتی ہیں کہ اکثر صحیح سمت چلنے کے باوجود آپ کو انہیں راستہ دینا پرتا ہے وگرنہ ٹریفک جام کرنے کی شرمندگی بھی آپ ہی کے حصّے میں آئے گی۔ ہم ٹریفک پولیس کو عدم کارکردگی پر مختلف القابات سے نوازتے ہیں اور پھر ایک دوسرے پر آنکھیں نکال کر اور آستینیں چڑھا کر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں ۔کبھی کہیں لائن میں لگنا پڑ جائے تو ہم سے زیادہ پریشان کوئی نہیں ہوتا۔
ہر ایک لائن توڑنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح لائن میں لگے بغیر ہی کام ہو جائے۔ اکثر اوقات اس معاملے پر لوگوں میں گالم گلوچ لڑائی جھگڑے بھی دیکھنے میں آ تے ہیں ۔الگ الگ دیکھا جائے تو ایسی کئی مثالیں اور بے شمار واقعات ہم سب کی یادداشت میں یقیناً محفوظ ہوں گے لیکن اگر بحیثیتِ مجموعی جائزہ لیا جائے تو معاملہ فقط اتنا ہے کہ ہم سب اس ملک کے شہری ہوتے ہوئے بھی اپنی شہری ذمہ داریاں نبھانے پر توّجہ نہیں دیتے ۔
ہر سو اڑتے ہوئے پلاسٹک کے شاپر بیگز، ہر گلی محلے کے کونوں میں لگے کچرے کے ڈھیر،سیوریج لائنوں کا اکثر اوقات گندا پانی گلی محلوں میں پھیلا دکھائی دیتا ہے ۔ جس سے ہر گزرنے والا شہری پریشان اور لعن طعن کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ بچوں میں بڑوں کے ادب اور تہذیب میں کمی، یہ تمام چیزیں اسی بات کی عکاّس ہیں کہ ڈگری کے اعتبار سے شاید ہم تعلیم یافتہ نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ کہلائیں، شعور اور آگہی کے پیمانے پر ہمارا شمار صرف جہالت میں ہوتا ہے۔
والدین اپنے بچوّں کو 500 روپے کا برگر اور 100 روپے کی آئس کریم تو دلاتے ہیں کہ بچّہ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر اس کا فخر یہ اعلان کر سکے، لیکن اس برگر کا خالی ڈبہ اور آئس کریم کا خالی ریپر سڑک پر پھینکنے یا گاڑی کی کھلی کھڑکی سے باہر اڑانے پر اسے نہیں روکتے۔یہ ہم ہی ہیں جو یورپین ممالک میں جا کر دو دو گھنٹے کچرے کی تھیلی ہاتھ میں لیے گھومتے ہیں کہ کچرا دان نظرآئے گا تو پھینک دیں گے۔
لندن، دبئی اور تھائی لینڈ کی سڑکوں پر گھنٹوں بغیر ہارن بجائے اسی لین میں اپنی گاڑی نکالنے کا انتظار کرتے ہیں کہ بے وجہ ہارن بجانے اور لین بدلنے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ دوہرامعیار کیوں؟یہ کہہ دینا کہ صفائی کا انتظام رکھنا، ٹریفک قوانین کی پاسداری کروانا، اور لوگوں کو لائن میں لگنے پر آمادہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یا پھر یہ کہنا کہ سبھی ایسا کرتے ہیں، میرے نہ کرنے سے کیا ہو گا؟ درحقیقت میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ چھپانا ہے۔
ہر بات میں مذہب کی دہائی دینے والے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ اور یہ صفائی محض گھر کی چار دیواری تک محدود نہیں۔ صبر و برداشت کا درس دینے والے ہم سڑک پر کسی گاڑی یا راہ گیر کو راستہ دیتے ہوئے یا لائن میں پیچھے ہو جانے پر لڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
آج ہم اپنی نئی نسل کے بارے میں یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان میں برداشت، رواداری، تحمل اور شعور کی کمی ہے، مگر اپنی نئی نسل میں یہ چیزیں منتقل کرنے والے تو ہم ہی ہیں کیوں کہ آج بچے وہی کرتے ہیں جو وہ ہمیں کرتے دیکھتے ہیں۔ اگر آج اس جانب توجہ نہ دی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا کل آپس میں ہمہ وقت دست و گریباں نظر آئے اور ہم کچھ نہ کر سکیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم میں نہ تعلیم کی کمی ہے نہ وسائل کی۔ کمی ہے تو صرف سمجھ اور شعور کی ،جو ہمیں ہماری ان ذمہ داری کو سمجھنے میں مدد دے۔ آج اگر ہم میں سے ہر ایک صرف یہ سوچ لے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے گا تو یقین جانیے کہ حالات کے سدھرنے میں وقت نہیں لگے گا۔ صرف اپنی ذمہ داری پہچان لیجیے، راستے خودبخود آسان ہوتے جائیں گے۔