
کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں (سورہ زمر۔ آیت 9)
پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس جو کہ جہلم جی ٹی روڈ پر وقعہ ٹی روڈ پر سٹی ہاؤسنگ سیکم کے سامنے واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ 33 ایکڑ ہے اور اس میں کل چار بلاکس ہیں۔ اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کے لیے تقریبا 34 کے قریب سرکاری گھر موجود ہیں۔ جب بھی تعلیمی معیار میں بہتری کی گفتگو ہوتی ہے تو اس کا محور اکثر اساتذہ کا معیار ہوتا ہے۔
یہاں کے موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مدثر غفور صاحب جن کا تعلق گوجرانوالہ سے ہےانہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری یونیورسٹی آف ڈنڈی انگلینڈ سے مینجمنٹ سائنس میں سال 2014 میں مکمل کی۔(یاد رہے کہ یہ یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ 200 بہترین یونیوسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے)۔
ڈائریکٹر ڈاکٹر مدثر غفور نے 15 مارچ 2017 کو جہلم کیمپس کا چارج سنبھالا۔ آج تقریبا 6 سال کے عرصے میں ڈائریکٹر صاحب نے اس کیمپس کو اپنی محنت اور لگن سے چار چاند لگا دئیے ہیں۔ سال 2017 سے پہلے اس کیمپس میں لاء، بی کام۔ کیمپیوٹر سائینس، بی بی اےکی ڈگریاں آفر کیا جاتی تھی۔ لیکن اب آپکو جان کر یہ خوشی ہوگی کہ بی ایس انگلش، بی ایس ایم ، بینکنگ اینڈ فنانس کے نئے ڈیپارٹمنٹ کی منظور ی کے ساتھ ساتھ انکی تعداد بھی ڈبل کروائی ہے۔
مثال کے طور پر اگر لاء میں پہلے 100 بچے داخلہ لیتے تھے تو اب انکی سیٹیں ڈبل کروائی ہیں۔ تاکہ جہلم اور اسکے گردونواح کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم نہ رکھ سکیں۔ اور اپنے علاقے میں یونیورسٹی کے ہوتے ہوئے یہ کسی دوسرے شہر میں حصول تعلیم کے لیے نہ جا سکیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اس علاقے کے لوگوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وائس چانسلر صاحب سے بارہا میٹینگز کرنے کے بعد سیٹوں کو ڈبل کروایا اور اگر آپ فیکلٹی کی بات کریں تو جہلم کیمپس کی تمام فیکلٹی نوجوان اساتذہ پر مشتمل ہے اور اپنی فیلڈ میں بہترین کام کر رہے ہیں اور بہترین ریسرچر کے طور پر اپنی اپنی فیلڈ میں ملک کی خدمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر رہے ہیں۔
جہلم کیمپس سے فارغ التحصیل طلبہ ء طالبات دنیا کے مختلف ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظام تعلیمی بھی دوہرا ہے۔ امیروں کے لیے الگ معیار کی تعلیم ہے، تو غریبوں کے لیے الگ، شہروں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کے لیے الگ، سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ، اور پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے الگ لیکن پنجاب یونیورسٹی جہلم کیمپس اس دوہرے نظام کو ختم کرنے میں سب سے آگے ہے۔
یہاں پر لینڈ لارڈز کے بچے بھی پڑھنے آتے ہیں اور غریب گھرانوں کے بھی اور ان میں کسی طرح کا کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ لیکن میں یہاں پر یہ بات ضرور کہوں گا کہ موجودہ ڈائریکٹر کیمپس پروفیسر ڈاکٹر مدثر غفور صاحب اس معامعلے میں بڑے کلئیر ہیں کہ انکو اگر کوئی بھی طالب علم جا کر اپنی فیس کے حوالے سے ملتا ہے تو وہ اسکا سابقہ رزلٹ دیکھتے ہوئے اس کی فیس میں فورا کمی کرتے ہیں اور اس طرح سے اس طالب علم کی فیس کم کرتے ہیں کہ اسکی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی اور اسکے ایک دفعہ ہی درخواست دینے پر اسکو ہدایت جاری کرتے ہیں کہ آپ صرف اپنی پڑھائی پر فوکس کرو یہ اب ہمارا کام ہے۔
یہاں کے بچے ڈگریاں لینے کے بعد مختلف شعبوں میں اپنا نام پیدا کر رہے ہیں،مثال کے طور پر جہلم کچہر ی میں اس وقت نوجوان وکلاء سب پنجاب یونیورسٹی جہلم کے سابقہ طالب علم ہیں۔ اور جہلم میں آئی ٹی کے بزنس سے منسلک لوگ بھی جہلم کیمپس سے فارغ التحصیل ہیں۔
ان چھ سالوں میں ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مدثر غفور صاحب نے 4 کانووکیشنز کا انعقاد کروایا ہے۔ جس میں مختلف شعبہ جات سے فارغ التحصیل طلبہ طالبات نے ڈگریاں حاصل کیں۔ اور اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کیا۔ اب آپ تصور کریں اگر یہ پنجاب یونیورسٹی جہلم میں نہ موجود ہوتی تو یہ اتنی تعداد میں طلباء کیسے تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔
خاص کر طالبات کے لیے دوسرے شہروں میں جا کر تعلیم جاری رکھنا نہایت مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں دوسرے شہر میں جا کر رہنا عام آدمی کے بس سے باہر ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ پنجاب یونیورسٹی میں فیسیں نہ ہونے کے برابر ہے جو ڈگری پنجاب یونیورسٹی چار سالوں میں ایک 150000روپے میں کروا رہی ہے وہی ڈگری پرائیوٹ سیکٹر میں پانچ لاکھ روپے سے زائد میں ہو رہی ہے۔ اور پھر بہترین فیکلٹی کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ جبکہ اسکے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی اپنے طالب علموں کو سکالر شپس بھی دیتی ہے۔ جو کہ کسی بھی طالب کو اسکی قابلیت کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔
میں اس بات پر ڈائریکٹر کیمپس کو خراج تحسین پیش کروں گا کہ انہوں نے آج تک فیس نہ ہونے کی وجہ سے کسی طالب علم کو ادارے سے نہیں نکالا۔ اسکی ڈگری کو مکمل کروانے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی ہر ممکن مدد کی۔دوسرے لفظوں میں جہلم کیمپس اس علاقے میں کسی نعمت سے کم نہیں۔
ہمیں خود بھی اپنے بچوں کی کردار سازی کرنی چاہیے۔ ہم اس کی ذمہ داری صرف حکومت یا اساتذہ پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ اس کی بہتری کے لیے والدین، سول سوسائٹی، اور حکمرانوں سمیت معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کا فرض ہے۔ برائی کو معاشرے سے ختم کرنا ہو یا ایک پھر ایک انصاف پر مبنی مثبت معاشرے کا قیام، دونوں کے لیے معاشرے کے ان تمام اکائیوں کی طرف سے محنت شرط ہے۔
میاں فیصل
پی ایچ ڈی سکالر
پنجاب یونیورسٹی
03228000950